(ایک مفصل فتویٰ)
۷۲۳/د
بسم
اللہ الرحمن الرحیم
سوال:
کیا فرماتے ہیں علماء کرام، مفتیان عظام مسئلہ ذیل کے
بارے میں کہ: ہمارے شہر کی مساجد میں معذور افراد کے لیے
{جیسے پیر میں تکلیف، گھٹنوں میں درد، کمردرد یا
کھڑے نہ ہوپانا، یا سجدہ زمین پر نہ کرپانا یا کوئی اور
عذر ہو جس سے نماز کھڑے ہوکر ادا نہیں کرسکتے} مسجد کی صف میں
دونوں کنارے پر کرسیاں رکھی جاتی ہیں؛ تاکہ معذور افراد
اس پر نماز ادا کرسکیں، ایسے ہی ہماری بھی مسجد میں
معذور افراد کے لیے کرسی کا انتظام ہے؛ مگر وہ کرسیاں ایک
خاص ڈیزائن کی بنی ہوئی
ہیں، بعض افراد نے اعتراض کیا ہے کہ ایسی کرسی پر
نماز کا پڑھنا درست نہیں ہے۔
جواب
طلب امر یہ ہے کہ اس خاص ڈیزائن والی کرسی پر مذکورہ
معذور افراد کی نماز درست ہوسکتی ہے یا نہیں؟ یا
پلاسٹک والی کرسی پر نماز ادا کی جائے، یا د رہے کہ خاص ڈیزائن
والی کرسی اِسٹیل کی بنی ہوئی ہے، مزید
معلومات کے لیے کرسی کی تصویر نماز ادا کرنے کی
حالت کی بھیجی جارہی
ہے؛ تاکہ نماز کی ہیئت سمجھنے میں دشواری نہ ہو، جس میں
تصویر نمبر ایک کی حالت سجدہ کی ہے جس میں مکمل
سجدہ کرسی پر ہے اور تصویر نمبر دو کی حالت بھی سجدہ کی
ہے جس میں اشارتاً سجدہ کیا جارہا ہے اور تصویر نمبر تین
کی حالت رکوع کی ہے جس میں رکوع کو ادا کرتے ہوئے دکھایا
ہے ایک رکوع کی شکل گھٹنے پر کرتے ہوئے دکھایاگیا ہے اور
ایک رکوع کی لکڑی پر ہے دونوں میں سے کونسی شکل
درست ہے، آپ حضرات سے درخواست ہے کہ تصویر میں خاص شکل والی
کرسی پر نماز کا ادا کرنا درست ہے یا نہیں جو کہ اسٹیل کی
ہے اور پلاسٹک والی کرسی پر نماز ادا کرنے کا کیا حکم ہے، نماز
ادا ہوجائے گی یا نہیں؟ یعنی رکوع، سجدہ وغیرہ
کا کیا طریقہ ہے؟ اور تصویر میں جو سجدہ اور رکوع کی
حالت دکھائی گئی ہے اس حالت میں نماز ادا ہوجائے گی یا
نہیں؟ قرآن واحادیث کی روشنی میں اور فقہاء
کرام کے ارشادات کے مطابق جواب عنایت فرماکر عند اللہ ماجور ومشکور ہوں۔
فقط
بندہ
آفاق احمد خاں کوپر کھیرنہ
نوی ممبئی
9320033837
نوٹ: فوٹو ضرورت کے تحت کھینچا گیا
ہے واپس جواب کے ساتھ بھیج دیں مہربانی ہوگی
-------------------------
۲۲۳/فائل
’’د‘‘
بسم
اللہ الرحمن الرحیم
الجواب
وباللّٰہ التوفیق: قیام اور سجدہ پر قادر شخص کے لیے نماز
میں قیام فرض اور نماز کارکن ہے۔ اگر قیام اور سجدہ پر
قدرت ہوتے ہوئے فرض نماز بیٹھ کر ادا کی جائے تو رکن کے فوت ہونے کی
وجہ سے نماز نہیں ہوگی، نماز کا اعادہ ضروری ہوگا، مِنْ فرائضِھا القیامُ في
فرضٍ لِقادرٍ علیہ علی السجود (درمختار
مع الشامی زکریا: ۲/۱۳۲) یہاں
تک کہ اگر نماز میں قیام کے کچھ حصے پر قدرت ہے مکمل طور پر قیام
پر قادر نہیں تو جتنی دیر قیام کرسکتا ہے خواہ کسی
عصا یا دیوار پر ٹیک لگاکر ہی کیوں نہ ہو، اتنی
دیر قیام کرنا فرض ہوگا، اگر اتنی دیر قیام نہ کیا
یا ٹیک لگاکر کھڑا نہ ہوا اور بیٹھ کر نماز مکمل
کی تو نماز نہیں ہوگی۔ وإن قدر علی
بعض القیام ولو متکئاً علی عصاً أو حائط قام لزوماً بقدر ما یقدر
ولو قدر آیۃ أو تکبیرۃ علی المذھب؛
لأن البعض معتبر بالکل (درمختار
مع الشامی زکریا: ۲/۵۶۷) اگر کوئی
شخص قیام پر قادر ہے؛ مگر کھڑے ہوکر نماز پڑھنے میں رکوع سجدہ یا
صرف سجدہ پر قادر نہیں تو اس کے لیے بیٹھ کر نماز ادا کرنا جائز
ہے وہ اشارہ سے رکوع وسجدہ ادا کرے، اس
صورت میں کھڑے ہوکر نماز ادا کرنے کے مقابلے میں بیٹھ کر اشارہ
سے نماز ادا کرنا افضل اور بہتر ہے و ان تعذرا، لیس
تعذُّرَھما شرطاً بل تعذر السجود کافٍ، لا القیام أومأ
قاعدًا؛ لأن رکنیۃ القیام للتوصل إلی
السجود فلا یجب دونہ (درمختار
مع الشامی زکریا: ۲/۵۶۷) فتاویٰ
عالمگیری: ۱/۱۳۶ میں
بھی اسی کے مثل ہے۔
جو
اعذار قیام کو ساقط کرنے والے ہیں وہ دو قسم کے ہیں: (۱) حقیقی: یعنی
اس طرح معذور ہو کہ قیام اس کے لیے ممکن نہ ہو۔ (۲) حکمی: یعنی
اس درجہ معذور نہ ہو کہ قیام پر قدرت ہی نہ ہو؛ بلکہ قدرت تو ہو مگر
گرجانے کا اندیشہ ہو یا ایسی کمزور حالت ہو جو عند الشرع
عذر میں شامل ہے، مثلاً : بیمار ہے اور ماہر مسلم تجربہ کار ڈاکٹر نے
کہا ہو کہ کھڑے ہونے میں بیماری میں اضافہ ہوگا یا
بیماری دیر سے صحیح ہوگی؛ یا کھڑے ہونے میں
ناقابلِ برداشت درد ہوتا ہو، ان صورتوں میں بیٹھ کر نماز ادا کرنا
جائز ہے۔ مَنْ تعذر علیہ القیامُ لمرضٍ حقیقي، وحدَہ أن یلحَقَہ
بالقیامِ ضررٌ، وفي البحر: أراد بالتعذر، التعذر الحقیقی
بحیث لو قام سقط، أو حکمي بأن خاف أي غلب علی
ظنہ بتجربۃ سابقۃ أو إخبار طبیب مسلم حاذق زیادتہ
أو بُطأِ برئہ بقیامہ أو دوران رأسہ أو
وجد لقیامہ ألماً شدیدًا صلی قاعدًا (در مع الرد زکریا: ۲/۵۶۵) اگر غیرمعمولی
درد نہ ہو؛ بلکہ ہلکی اور قابل برداشت تکلیف کا سامنا ہوتو یہ
عند الشرع عذر نہیں اس صورت میں بیٹھ کر نماز اداکرنا جائز نہیں، وإن لم یکن
کذلک (أي بما ذُکر) ولکن یلحقہ نوعُ مشقۃٍ لا یجوز ترکُ
القیام (تاتارخانیہ
زکریا: ۲/۶۶۷)،
جو شخص قیام پر قادر نہیں، لیکن
زمین پر بیٹھ کر سجدہ کے ساتھ نماز ادا کرسکتا ہے تو اس کو زمین
پر بیٹھ کر سجدہ کے ساتھ نماز ادا کرنا ضروری ہے، زمین پر سجدہ
نہ کرتے ہوئے کرسی پر یا زمین پر اشارہ سے سجدہ کرنا جائز نہیں۔ وإن عجز عن
القیام وقَدَرَ علی القعود؛ فإنہ یصلي المکتوبۃَ
قاعدًا برکوعٍ وسجود ولا یجزیہ غیر ذلک (تاتارخانیہ زکریا: ۲/۶۶۶۷)، اگر
رکوع سجدہ پر قدرت نہیں اور زمین پر بیٹھ کر اشارہ سے نماز ادا
کرسکتا ہے تو تشہد کی حالت پر بیٹھنا ضروری نہیں؛ بلکہ جس
ہیئت پر بھی خواہ تورک (عورت کا تشہد میں بیٹھنے کا طریقہ)
کی حالت پر یا آَتی پالتی مارکر بیٹھنا سہل
وممکن ہو اس ہیئت کو اختیار کرکے زمین ہی پر بیٹھ
کر اشارہ سے نماز ادا کی جائے، کرسیوں کو اختیار نہ کیا
جائے؛ کیونکہ شریعت نے ایسے معذورین کو زمین پر بیٹھنے
کے سلسلے میں مکمل رعایت دی ہے کہ جس ہیئت میں ممکن
ہو بیٹھ کر نماز ادا کرے من تَعَذَّرَ علیہ القیامُ لمرضٍ۔۔۔ أو
خَافَ زیادتَہٗ۔۔۔ أو وَجَدَ لقیامہ ألماً
شدیداً صلی قاعداً کیف شاء (درمختار مع الشامی زکریا:
۲/۵۶۶) اس
صورت میں بلا ضرورت کرسیوں پر بیٹھ کر نماز اداکرنا بہ چند وجوہ
کراہت سے خالی نہیں۔
(۱) زمین
پر بیٹھ کر ادا کرنا مسنون طریقہ ہے اسی پر صحابہ کرامؓ
اور بعد کے لوگوں کا عمل رہا ہے، نوے کی دہائی سے قبل تک کرسیوں
پر بیٹھ کر نماز ادا کرنے کا رواج نہیں تھا، نہ ہی خیرالقرون
سے اس طرح کی نظیر ملتی ہے۔
(۲) کرسیوں
کے بلا ضرورت استعمال سے صفوں میں بہت خلل ہوتا ہے؛ حالاںکہ اتصال صفوف کی
حدیث میں بہت تاکید آئی ہے: قال النبي صلی
اللہ علیہ وسلم: راصّوا صفوفَکُمْ وقارِبوا بینھا وحَاذَوا بالأعناق
فوالذي نفسُ محمدٍ بیدہٖ إني لَأری الشیاطین
تدخل من خلل الصف کأنھا الخذف (نسائی:۱/۱۳۱)
(۳) بلاضرورت
کرسیوں کو مساجد میں لانے سے اغیار کی عبادت گاہوں سے
مشابہت ہوتی ہے اور دینی امور میں ہم کو غیروں کی
مشابہت سے منع کیاگیا ہے۔
(۴) نماز،
تواضع وانکساری سے عبارت ہے اور بلاضرورت کرسی پر بیٹھ کر ادا
کرنے کے مقابلے میں زمین پر ادا کرنے میں یہ انکساری
بدرجۂ اتم پائی جاتی ہے۔
(۵) نماز
میں زمین سے قرب ایک مطلوب شے ہے جو کرسیوں پر ادا کرنے میں
مفقود ہے۔ البتہ اگر زمین پر کسی بھی ہیئت میں
بیٹھ کر نماز ادا کرنا دشوار ہوجائے تو پھر کرسیوں پر ضرورت کی وجہ
سے نماز ادا کی جاسکتی ہے؛ لیکن اگر زمین پر بیٹھ
کر رکوع وسجدہ کی قدرت ہوگی تو پھر کرسی پر نماز ادا کرنا جائز
نہیں ہوگا۔
بہرحال جس صورت میں ضرورۃً
کرسی پر بیٹھ کر نمازادا کرنے کی اجازت دی گئی ہے،
اس میں بھی مصلی کو چاہیے کہ سجدے کے وقت اشارہ پر اکتفا
کرے؛ جہاں تک کرسی کے کسی حصے (مثلاً: اس پر لگی لکڑی) پر
سجدہ کرنے کی بات ہے تو اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ بحالت معذوری
کسی اونچی چیز پر سجدہ کرنے کے سلسلے میں روایات
مختلف آئی ہیں: چناںچہ ایک مرتبہ نبی کریمﷺ
ایک صحابی کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے وہ
صحابی معذوری کی وجہ سے نماز میں ایک تکیہ پر
سجدہ کرتے تھے، آپﷺ نے ان کو اس سے منع کرتے ہوئے فرمایا: اگر
زمین پرسجدہ کرنا تمہارے بس میں نہ ہوتو اشارے سے نماز ادا کرو اور
سجدہ میں رکوع کے مقابلے میں زیادہ جھکو، رواہ البزار، ورجالہ رجال الصحیح (اعلاء
السنن: ۷/۱۷۸)
دوسری
روایت ہے کہ ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا جب بیمار
ہوئیں تو ان کے سامنے تکیہ رکھ دیاگیا تھا اس پر وہ سجدہ
کرتی تھیں، آپﷺ نے دیکھا تو اس پر کوئی نکیر
نہیں فرمائی، اور آں حضورﷺ کا کسی عمل کو دیکھ
کر سکوت اختیار کرنا اس کے اذن کی دلیل ہے۔
علامہ
شامیؒ نے دونوں روایتوں میں یہ تطبیق دی
ہے کہ کراہت اس صورت میں ہے جب آدمی دوران نماز کوئی چیز
اٹھاکر اس پر سجدہ کرے اگر زمین میں پہلے سے کوئی چیز نصب
کردی گئی ہو جس پر مصلی سجدہ کرے تو یہ بلا کراہت جائز ہے۔
اقول: ھذا محمول علی ما إذا کان یحمل إلی
وجھہ شیئاً یسجد علیہ، بخلاف ما إذا کان موضوعاً علی
الأرض۔ (وقال بعد أسطر:) بأن مفاد ھذہ المقابلۃ
والاستدلال عدم الکراھۃ في الموضوع المرتفع (شامی: ۲/۵۶۸) علامہ
چلپیؒ نے بھی کراہت کو شکل اوّل پرمحمول کیا ہے (حاشیہ
الشلبی علی التبیین: ۱/۲۰۰،
ط: پاکستان) فتاویٰ عالمگیری میں بھی یہی
تطبیق منقول ہے۔ (ہندیہ: ۱/۱۳۶،
ط: زکریا)
مذکورہ
بالا عبارات کاحاصل یہی ہے کہ کسی نصب شدہ اونچی چیز
پر سجدہ کرنا، یا بغیر کچھ رکھے ہوئے سجدہ کے لیے صرف اشارہ
کرنا دونوں جائز ہے، مگر مذکورہ ٹیبل والی کرسی پر سجدہ، حقیقی
سجدہ نہیں ہوگا؛ بلکہ وہ بھی اشارہ ہی ہوگا، مذکورہ کرسی
پر بیٹھ کر اگر کوئی شخص نماز پڑھائے گا تو اس کے پیچھے رکوع
وسجدہ کرنے والوں کی نماز نہیں ہوگی، علامہ شامی لکھتے ہیں:
إن کان الموضوع مما یصح السجود علیہ
کحجر مثلاً ولم یزد ارتفاعہ علی قدر لبنۃ أو لبنتین
فھو سجود حقیقي فیکون راکعاً وساجدًا، وإن لم یکن
الموضوع کذلک یکون مومئاً فلا یصح اقتداء القائم بہ (شامی
زکریا: ۲/۵۶۹)
لیکن نبی کریم علیہ
السلام اور دیگر صحابۂ کرامؓ کے منع کرنے کی وجہ سے اس
کا غیر اولیٰ ہونا معلوم ہوتا ہے، نیز ایک خرابی
یہ بھی ہے کہ ان لوگوں کو جو عام کرسی پر نماز ادا کررہے ہوں،
اپنی نماز میں کمی کا شبہ ہوگا کہ ہم نے کسی میز پر
سجدہ نہیں کیا، حکیم الامت حضرت تھانوی قدس سرہ نے بھی
اس کو غیر اولیٰ کہا ہے: ’’سجدہ کرنے کے لیے تکیہ
وغیرہ کوئی اونچی چیز رکھ لینا اور اس پر سجدہ کرنا
بہتر نہیں، جب سجدہ کی قدرت نہ ہو تو بس اشارہ کرلیا جائے، تکیہ
کے اوپر سجدہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ (بہشتی زیور: ۲/۴۵
بیمار کی نماز کا بیان)
اب
اختصار کے ساتھ جواب کا ماحصل ذیل میں پیش کیا جاتا ہے:
(۱) جو
شخص قیام پر قادر نہ ہو، لیکن کسی بھی ہیئت پر زمین
پر بیٹھ کر رکوع وسجدہ کے ساتھ نماز ادا کرسکتا ہے ، تو اس کو زمین ہی
پر بیٹھ کر رکوع وسجدہ کے ساتھ نماز اداکرنا ضروری ہے، کرسی پر
بیٹھ کر رکوع وسجدہ کے اشارے سے نماز ادا کرنا جائز
نہیں، نماز نہیں ہوگی۔
(۲) اگر
قیام پر قدرت ہے، لیکن گھٹنے کمر میں شدید تکلیف کی
وجہ سے سجدہ کرنا طاقت سے باہر ہو، یا وہ شخص جو زمین پر بیٹھنے
میں قادر ہے، مگر رکوع وسجدہ پر قدرت نہیں رکھتا تو یہ حضرات زمین
پر بیٹھ کر نماز ادا کریں کرسیوں کو استعمال کرنا کراہت سے خالی
نہیں؛ البتہ اگر زمین پر کسی بھی ہیئت میں بیٹھنا
دشوار ہو تب کرسی پر نماز ادا کی جاسکتی ہے، کرسی استعمال
کرنے کی صورت میں بھی عام سادہ کرسی پر نماز ادا کی
جائے، ٹیبل والی کرسی پر نماز ادا کرنے سے احتراز کیا
جائے، رکوع کے لیے تین نمبر کی شکل صحیح ہے۔ (اس
جملے کا تعلق مستفتی کی بھیجی ہوئی تصویر سے
ہے۔ (زین)
زمین
یا کرسی پر نماز اداکرنے سے متعلق دو امر قابل لحاظ ہیں:
(۱)
کرسی پر اشارہ کرنے کی صورت میں بعض لوگ رکوع میں ہاتھ کو
ران پر رکھتے ہیں اور سجدہ کی حالت میں فضا میں معلق رکھ
کر اشارہ سے سجدہ کرتے ہیں ایسا کرنا ثابت نہیں، رکوع وسجدہ
دونوں میں ہاتھ کو ران پر رکھنا چاہیے۔
(۲) معذوری
کی حالت میں زمین پر بیٹھ کر رکوع وسجدہ کے ساتھ نماز ادا
کرنے کی صورت میں رکوع میں سرین کا زمین سے اٹھنا
ضروری نہیں؛ بل کہ پیشانی کا گھٹنے کے مقابل ہونا ضروری
ہے، جیساکہ امداد الاحکام میں ہے: بحالت جلوس رکوع کرتے ہوئے صرف اتنا
ضروری ہے کہ پیشانی کو گھٹنے کے مقابل کردیا جائے، اس سے
زیادہ جھکنے کی ضرورت نہیں، نہ سرین اٹھانے کی
ضرورت ہے۔ (امداد الاحکام، ۱/۶۰۹)
اب
کرسیوں پر نماز ادا کرنے والے حضرات اپنے احوال پر غور فرمائیں کہ کیا
واقعتا وہ اس درجہ معذور ہیں کہ شرعاً ان کے لیے کرسی پر نماز
اداکرنا جائز ہو، اگر وہ اُس درجہ معذور نہیں تو پھر کرسیوں پر نماز
پڑھنے سے احتراز کریں؛ تاکہ مساجد میں بے ضرورت کرسیوں کی
کثرت نہ ہو۔ بوقت ضرورت کرسی اختیار کرنے کی صورت میں
ٹیبل والی کرسی اختیار نہ کی جائے۔ فقط واللہ
تعالیٰ اعلم
کتبہ
الاحقر
زین
الاسلام قاسمی الہ آبادی
نائب
مفتی دارالعلوم دیوبند
۲۵؍۵؍۱۴۳۲ھ
الجواب صحیح حبیب الرحمن عفا اللہ عنہ
الجواب صحیح محمودحسن غفرلہ بلندشہری
الجواب صحیح فخرالاسلام
٭ ٭ ٭
--------------------------------------
دارالعلوم ، شماره 6، جلد: 95 رجب 1432ہجری مطابق جون 2011 ء